سلطان خیلوں کی کراچی ہجرت کی تاریخ..
پہلا سلطان خیل جس نے کراچی پر قدم رکھا اس مرد قلندر کا نام شاہنواز خان ھے
جی ھاں شاہنواز خان شہابی خیل سلطان خیل کلی کا پہلا فرزند جس نے 1886ء میں کراچی دریافت کیا شنید ھے کہ موصوف پیدل کراچی آئے تھے ۔
شاہنواز خان مرحوم جو میوہ شاہ قبرستان میں آسودہ خاک ھیں ہمارے محسن ھیں جنہوں نے ہمیں کراچی کی راہ دکھائی مرحوم ہمارے لئے اتنا ھی اہم ھے جتنا دنیا کے لئے چاند پر پہلا قدم رکھنے والا نیل آرمسٹرانگ ۔
شاہنواز خان مرحوم کے تین بیٹے تھے جو کراچی میں پیدا ھوئے نواز خان مرحوم ، خواص خان مرحوم اور گلباز خان مرحوم ۔
( اس معلومات کے لئے جناب ماجد خان شہابی خیل اور جمشید خان شہابی خیل اور شہنواز خان مرحوم کے اخلاف میں سے ھیں ان کا مشکور ھوں )
آج کراچی کے مختلف علاقوں میں سلطان خیل کلی کے ھر برادری کے لوگ موجود ھیں ۔
میرے اندازے کے مطابق کراچی میں سلطان خیلوں کی آبادی اس وقت 10 سے 15 ھزار ھوگی۔
سلطان خیل کی کراچی آمد کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ھے
1۔ پہلا دور 1886ء تا 1925ء تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1900ء تک سلطان خیل کے چند خاندان ھی کراچی آئے مگر 1900ء سے 1925 ,تک کراچی آنے والے سلطان خیلوں کی تعداد اچھی خاصی ھوگئی تھی اس دور میں آنے والوں کا مسکن موسٰی لین لیاری تھا انہیں اس وقت نیازی کے بجائے پٹھان کے طور پر شناخت ملی ۔
یہی وجہ ھےکہ ان کی موسٰی لین میں تعمیر کردہ مسجد جو کراچی کے خوبصورت اور اوّلین مساجد میں شمار ھوتی ھے آج بھی پٹھان مسجد کےنام سے موجود ھے۔
اس دور کے سلطان خیل ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ھوئے ۔
موسٰی لین والے اپنی زبان ، تاریخ اور ثقافت سے تقریباً کٹ چکے ھیں مگر ان میں ابھی بھی ایسے درویش موجود ھیں جنہیں بہت اچھی پشتو بولنی آتی ھے ۔
2 ۔ دوسرا دور 1925ء سے 1975ء تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دور میں سلطان خیلوں کی بہت بڑی تعداد نے بمع اہل وعیال کراچی کا رخ کیا
ان کا ابتدائی مسکن قمرالعلوم مدرسہ کے پاس اولڈ ٹرک اسٹینڈ تھا جہاں اہنہوں نے " تڈاں آلی " کے نام سے ایک بستی بسائی اس بستی میں تمام گھر چٹائی سے بنائے گئے تھے پشتو میں چٹائی کو تاڈے کہتے ھیں اس لئے اسے تڈاں آلی کہتے تھے یہ گھر ایک دوسرے سے جڑے تھے
غالباً 1955/60ءمیں تڈاں آلی نامی اس بستی میں آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا اور سلطان خیل برادری کے تمام گھر خاکستر ھوگئے یہاں مقیم سلطان خیل متاثرین کو دریاآباد میں پلاٹ مل گئے جو کے ایم سی کی زمین تھی پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں انہیں لیز مل گئی
اس دور میں آنے والوں کا ذریعہ معاش بھی فشری سےجڑا رھا
فشری میں مچھلی خرید کر مختلف علاقوں میں اسے بیچنا جسے پھیری کہا جاتا تھا ان کا پیشہ رھا مگر اس دور میں سوائے چند خاندانوں کے سلطان خیل مالی طور پر زیادہ مستحکم نہیں ھوئے
اس دور میں بھی ان کی پہچان صرف پٹھان کے طور پر ھی رہی مگر بدقسمتی کہ ان کی ثقافتی حالت بھی کوئی قابل رشک نہیں ھے ان کے ھاں بھی پشتو اب صرف خواتین یا اسپین ژیریو تک ھی رہ گئی ھے ۔
3۔ تیسرا دور 1975ء سے تاحال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دور میں بھی بسلسلہ معاش بہت زیادہ سلطان خیلوں نے ٹبر سمیت کراچی کا رخ کیا۔
اس دور میں آنے والوں میں کچھ نے تو دریاآباد کو مسکن بنایا مگر اکثریت نے مہاجر کیمپ ، ہنگورہ آباد، آگرہ تاج اور محمدی کالونی میں سکونت اختیار کی ۔
اس دور میں چھڑے بھی بڑی تعداد میں کراچی آئے یہ سلطان خیلوں کے لئے ایک سنہرا دور تھا سلطان خیل محنت کش مزدوری سے لانچ اور ڈرائیوری سے ٹرک مالکان بن گئے فشری اور ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے سلطان خیل مالی طور پر بہت مستحکم ھوئے ۔
اسی دور میں سلطان خیل نوجوان سرکاری ملازمتوں کی طرف بھی گئے ۔
ساتھ ہی ساتھ ان میں سیاسی شعور بھی آیا اور وہ عملی سیاست میں حصہ لینے لگے
اس کے علاوہ انہیں پٹھان کے بجائے نیازی قوم کے طور پر شناخت بھی ملی
فلاحی یونٹ " میانوالی جماعت " کا قیام بھی اسی دور میں عمل میں آیا ۔
اس دور میں آنے والوں کی پشتو بھی ٹھیک ھے اور انہیں پشتون ثقافت کا مکمل فہم اور ادراک بھی ھے ۔
مگر اس دور میں سلطان خیل جو متحد تھے آہستہ آہستہ برادری ، مسلک ، اور سیاسی وابستگی کی بنیاد پر تقسیم ھونا شروع ھو گئے ۔
2000 کے بعد سے سلطان خیلوں کا کراچی آنا بہت کم ھوگیا ھے ۔
کراچی کے سلطان خیلوں کا وسیلہ رزق روزِ اوّل سے
" فشری " تھا اورآج بھی ھے..
"سلطان خیل نیازی پشتون "
Comments
Post a Comment